سیاہ آئینے، اردو ناول میں ایک تجرباتی نگارش کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے. یہ اپنے نام کی طرح اپنے اسلوب اور انداز میں یکتا ہے. اسی لئے اس کے بارے میں اچھی رائے سننے کو ملی۔
ناول کی کہانی کچھ عجیب کرداروں کے گرد گھومتی ہے. ان میں ایک بھگوڑا پروفیسر فیاضی، ایک بے ضرر مرکزی کردار بنام منیر، ایک غریب لڑکا عزیز، ایک اوباش یتیم نوجوان بشیراور ایک دولت مند جنسی شکاری عارف قابلِ ذکر ہیں۔
اوپر دیے گئے کرداروں کے بارے میں پڑھ کر ناول کے پلاٹ کی عمدگی اور کشادگی کے بارے میں کافی امید پیدا ہوتی ہے مگر ایسا ضروری بھی نہیں کہ کتاب ویسے ہی نکلے۔
کہانی کا مرکزی کردار فیاضی سب سے مضبوط کردار ہے. چونکہ سارے کردار ایک دوسرے سے جڑے ہیں، اس لئے فیاضی تمام کرداروں پر بھاری ہے. یہ تمام کرداروں کے ذہنی و جذباتی مسائل کا منطق اور اپنے علم سے حل دینے کی کوشش کرتا ہے. ناول کے باقی سب کردار بہت سطحی ہیں اور ان کو بے جا فلسفی بنانے کی کوشش کی گئی ہے. فیاضی کا کردار اصل میں مصنف کی اپنی ذات سے کشید کیا گیا ہے. اس کا سب سے بہترین ثبوت فیاضی کا بائیبل کے پرانے اور نئے عہد نامہ پر سیر حاصل تبصرہ کرنا اور پادریوں کو لاجواب کرنا ہے. مصنف نے خود بھی اپنے انٹرویو میں اس چیز کا اعتراف کیا کہ وہ ان دو کتب سے بہت متاثر ہوئے۔
باقی کردار صرف اور صرف کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے تخلیق کیے گئے. اس لیے کہانی میں ان کے مکالمات بہت مصنوعی محسوس ہوئے. ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ناول کا مقصد ہی فیاضی نامی کردار کے فلسفہ ہائے زندگانی کو متعارف کرانا تھا۔
سیاہ آئینے، بلاشبہ اردو ناول میں ایک نیا اضافہ تھا، اس لیے اس کو اسکی انفرادیت کے لحاظ سے آدم جی انعام سے نوازا گیا. مگر یہ بھی یاد رہے کہ اردو ناول میں اشاعتی قحط کی وجہ سے کم کتب شائع ہو پاتی ہیں اور ان کی تعداد بھی کم ہوتی ہے. اشاعتی تعداد کم ہونے کا مطلب ہے کہ یہ کتاب محدود قاریوں کی پہنچ تک پائے گی. اس لیے مقابلے کی فضا دوسری زبانوں کے ادب کی طرح بن نہیں پاتی. یہ ناول اس سال محدود اردو ناولوں میں بلاشبہ سب سے بہتر ہوگا مگر یہ کچھ ایسے شے نہیں ہے کہ عام قاری کی حسیات کو جھنجھنا سکے. غیر معمولی سنجیدہ قاری شاید اس کو پسند کریں۔
ناول میں بہر حال کچھ ایسے غیر معمولی پیرے موجود تھے کہ جن کے اقتباسات پیش کرنا ضروری ہے۔
وہ محبت جو ڈرتی ہے.شرماتی ہے اور لمحہ بہ لمحہ خوفزدہ رہتی ہے. اسے غریبی جنم دیتی ہے. ایسی محبت میں اثبات نہیں ہوتا. انکار ہی انکار ہوتا ہے. جو ہاں ہوتی ہے وہ بھی انکار ہی کے لہجے میں ادا کی جاتی ہے. یہ نسلوں کا نوحہ ہے. اور ڈری ہوئی ہوئی محبّتوں کی تاریک راہوں پر اترتی رات کا ٹھٹرا ہوا آنسو ہے۔
اعضا کو کاٹا یا جوڑا جا سکتا ہے. تو احساسات کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے اور نئے احساسات بھی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
جس علاقے کے بچے اپنی عمر سے زیادہ تیز طرار ہوں تو سمجھ جاؤ کہ وہاں کے بڑے انہیں تربیت دینے کی ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہوچکے ہیں۔
وہاں کے نوجوان جذباتی طور پر بے حد بزدل واقع ہوئے تھے. ان کی خواہشاتِ نفس اور تمام کے تمام جنسی جذبے اندر ہی اندر دبے رہتے تھے. گھٹن تھی جو انہیں خود پر حاوی رکھنی ہوتی تھی اور یوں وہ محض مجبور ہوکر رہ گئے گئے تھے۔
وہ کام کاج کرنے میں چست تھے اور اپنی دوسری مصروفیات کو کسی نہ کسی طرح پورا کر رہتے تھے. مگر اپنی جنسی ضروریات کے سامنے بھک منگوں کی طرح چپ چاپ کھڑے رہتے تھے اور آس لگائے رکھتے تھے کہ کسی دن غائب سے مددگار ہاتھ طسلماتی طور پر وجود میں آئے گا اور جو انھیں راہ دکھاتے ہوئے بند کمروں میں موجود باریک کپڑے پہنے ہوئے دوشیزاؤں کے پاس لے جائے گا. وہ آپس میں باتیں کرتے تھے تو خواہشات تک فرض کرلیتے تھے اور ننگی بےپردہ آرزو کو ساتھ رکھتے ہوئے سرسراتے پردوں اور تصوراتی شیشے کی بند کھڑکیوں کے پیچھے جھانکنے کی کوشش میں اپنے اصلی منصبی فرائض بھول جاتے تھے اور اپنے تمام غم رنگ و روغن کی لپیٹ لیے ہوئے بے وزن اور ناقابل عمل یاداشت کے حوالے کرتے تھے اور جو کچھ ایک دوسرے کو بتاتے سناتے تھے اور دلچسپ رنگین ہونے کے باوجود ہاتھوں پر پر اٹھائے ہوئے یے گتے کے گیلے مکانوں کی طرح نہ بے بس اور پر درد ہوتا تھا. وہ اپنی بات چیت کی پرمذاق اور پرتعفن سیڑھیوں کو گویا یا پیٹ کے بل رینگتے ہوئے طے کرتے تھے اور خواہشات کی برسرعام نمائش کرنے سے باز نہیں رہتے تھے. ان نوجوانوں نے خود کو کو عجیب و غریب مشکلوں میں تقسیم کر رکھا تھا. انھوں نے باتوں کے غلیظ اور بدبودار ریشوں کا ایک اک نفرت انگیز جال بن رکھا تھا. جس میں اول تا آخر گرفتار رہتے ہوئے بھی یہ خود کو دلاسے دیتے رہتے تھے۔
Siyah Ainay / سیاہ آئینے
خالد فاروق نے پہلے افسانے لکھے اور پھر یہ ناول سیاہ آئینے۔
پہلی بار یہ ناول 1977 میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد سے یہ ناول مختلف اداروں سے دو بار شائع ہوا اور اس کے بارے میں رائے مسلسل تبدیل اور بہتر سے بہتر ہوتی گئی۔ ڈاکٹر محمد اجمل نے اس ناول کے بارے میں کہا کہ ’’یہ ناول اردو ادب میں ایک نئی روایت کا آغاز ہے اور اس میں ایک عظیم ناول کی اکثر خصوصیات موجود ہیں‘‘۔
اس ناول کو ’’آدم جی ادبی انعام‘‘ بھی دیا جا چکا ہے۔
Siyah Ainay / سیاہ آئینے