Sawaar aur Doosrey Afsaaney [سوار اور دوسرے افسانے ] By Shamsur Rahman Faruqi
ایک طرح سے یہ افسانے مبھی مجھے کئی چاند تھے سرِ آسماں ہی کے سلسلے کی ایک کڑی لگے۔ ہر وہ شخص جس کو اردو شاعری سے دلچسپی رہی ہے اس کے لیے تو یہ افسانے سونا ہیں۔ Sawaar aur Doosrey Afsaaney [سوار اور دوسرے افسانے ] ”سوار اور دوسرے افسانے“ (2001) شمس الرحمن فاروقی مرحوم کے افسانوں کا واحد مجموعہ ہے جو ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ اس میں پانچ افسانے شامل ہیں اور یہ پانچوں افسانے مجموعے کی شکل میں شائع ہونے سے پہلے ان کے رسالے شب خون میں مختلف قلمی ناموں کے تحت شائع ہو چکے تھے۔ انھوں نے اس مجموعے میں شامل افسانوں کے علاوہ بھی کئی افسانے شب خون کے لیے لکھے اور وہ بھی اپنے اصل نام کے بجائے کسی مصلحت کے تحت مختلف قلمی ناموں کے ساتھ ہی شائع کیے۔ اب ”سوار اور دوسرے افسانے“ کے مشمولات اور شب خون میں چھپنے والے فاروقی صاحب کے دیگر تمام افسانے ”مجموعہ شمس الرحمن فاروقی“ (مرتبہ: محمد حمید شاہد، بُک کارنر، 2021) میں ان کی دیگر مختصر افسانوی تحریروں کے ساتھ جمع کر دیے گئے ہیں۔
”لاہور کا ایک واقعہ“ کو چھوڑ کر ”سوار“ کے باقی چار افسانے ادب کی اس صنف سے تعلق رکھتے ہیں جسے تاریخی تہذیبی یا تاریخی ادبی افسانہ کہا جا سکتا ہے۔ ان افسانوں میں شمالی ہند کی مسلم تہذیب و معاشرت اور وہاں کی ادبی سرگرمیوں کا ایک دلکش اور حیرت افزا بیانیہ موجود ہے۔ یہ افسانے تاریخی تہذیبی یا تاریخی ادبی افسانے کی اُس روایت کا تسلسل ہیں جو مرزا فرحت اللہ بیگ کے افسانے ”1261 ہجری میں دہلی کا ایک مشاعرہ“ سے شروع ہوئی۔ ”لاہور کا ایک واقعہ“ کے علاوہ اس مجموعے میں اِن صحبتوں میں آخر، سوار، آفتابِ زمیں اور غالب افسانہ شامل ہیں۔ اِن صحبتوں میں آخر میر، آفتابِ زمیں مصحفی اور غالب افسانہ غالب کے بارے میں ہیں۔
شمس الرحمن صاحب نے اپنے افسانہ نگاری کے رجحان اور اس سفر کے راستے میں پیش آنے والی، کچھ حالات کی، کچھ ان کے اپنے معیار کی، رکاوٹوں پر اس مجموعے کے دیباچے میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ”سوار“ میں شامل افسانوں کے پس منظر پر بھی کافی کچھ کہا ہے۔ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال (1707) کے بعد اگلے سو سال مغل بادشاہی کے زوال کا زمانہ ہیں۔ چنانچہ اٹھارہویں صدی کو برصغیر میں نہ صرف مسلم حکومت بلکہ مسلم تہذیب و معاشرت کے زوال کی صدی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے اور اس صدی کا ذکر عمومی طور پر اس دور کے سیاسی عدم استحکام کے حوال�� سے ہی کیا جاتا ہے۔ اس میں ایسا کچھ غلط بھی نہیں، تاہم شمس الرحمن فاروقی صاحب کو اٹھارہویں صدی کے اس کلی طور پر یک طرفہ تجزیے سے اتفاق نہیں تھا۔
”اٹھارویں صدی کو میں ہند اسلامی تہذیبی تاریخ کا زریں باب سمجھتا ہوں ۔۔۔ اور اٹھارویں صدی کی دہلی کا کوئی کیا حال لکھے۔ ہم لوگ چند شہر آشوبوں، چند ہجوؤں، تعصب اور کینہ پر مبنی چند افسانوں کو تاریخ قرار دے کر اٹھارویں صدی کی دہلی کو زوال، انتشار، بدامنی، طوائف الملوکی، امیروں کی مفلسی اور غریبوں کی فاقہ کشی کا شہر سمجھتے ہیں۔ سو برس کی مدت کم نہیں ہوتی، اور بےشک اس مدت میں دہلی کئی بار لٹی اور اجڑی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سارے سو برس وہاں الّو ہی بولتے رہے تھے۔“
”میں اس دلّی کا دلدادہ تھا، کیوں کہ اردو کی ادبی تہذیب صحیح معنی میں اپنا رنگ اور طور طریق محمد شاہ [1719-1748] اور احمد شاہ [1748-1754] اور پھر شاہ عالم ثانی [1760-1806] کے زمانے میں حاصل کرتی ہے۔ سیاسی قوت اس شہر کی بھلے ہی گھٹ گئی ہو، لیکن اس کی تہذیب زوال آمادہ اور انحطاط آلود نہ تھی ۔۔۔ دلی کا چھوٹا سا پیکر آصف الدولہ [1775-1797] کے وقت سے لے کر واجد علی شاہ [1847-1856] کا لکھنؤ تھا۔ لیکن افسوس کہ لکھنؤ کی تصویر ہمارے ذہنوں میں پریم چند کے افسانے اور ستیہ جیت رائے کی فلم نے بنائی ہے، ٹھوس تاریخ نے نہیں۔“
”سوار“ کے افسانوں میں زمانی اعتبار سے سب سے پہلے ”غالب افسانہ“ لکھا گیا تھا: ”اچانک مجھے خیال آیا کہ غالب کے بارے میں افسانے اور حقیقت پر مبنی ایک بیانیہ کیوں نہ لکھوں، جس میں کچھ غالب سے متعلق ادب کے معاملات، کچھ اس زمانے کی ادبی تہذیب اور کچھ تاریخ، سب حل ہو کر یکجان ہو جائیں۔“
”لاہور کا ایک واقعہ فوری طور پر غالب افسانہ کے بقدر کامیاب نہ ہوا، شاید اس لیے کہ اس افسانے میں ادبی تاریخ اور تہذیب کی گونج مدھم تھی ۔۔۔ میرے قریبی لوگوں میں جو بھی اس بات سے واقف تھا کہ ان افسانوں کا مصنف میں ہوں، اس نے باصرار کہا کہ اب آپ ”میر افسانہ“ لکھیے۔“
”دلّی کا حق تھوڑا بہت ادا کرنے کے لیے میں نے پہلے میر کے بارے میں افسانہ نہیں لکھا۔ بلکہ ”سوار“ لکھا۔ میرے اپنے حساب سے اس افسانے کا مرکزی کردار خود شہرِ دہلی ہے ۔۔۔ پھر سوار کے بعد مجھے ”ان صحبتوں میں آخر“ لکھنا ہی تھا اور وہاں بھی، جیسا کہ بہت سے پڑھنے والوں نے محسوس کیا، صرف میر نہیں ہیں۔ اس کی بعد ”آفتابِ زمیں“ آتا ہے، جس میں دہلی کی جھلک بھی ہے، اور دہلی کی اولادِ معنوی، یا اس کے جانشین کے طور پر لکھنؤ دھیرے دھیرے خود کو قائم کر رہا ہے۔ لیکن اس کے لیے شجاع الدولہ اور سعادت علی خان کا خونِ گرم برقِ خرمن بن گیا۔ اس کے کچھ اشارے غالب افسانہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔“
مجھے ان پانچوں افسانوں میں سب سے زیادہ غالب افسانہ پسند آیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میر، مصحفی اور غالب میں سے، مرزا غالب ہی کے متعلق میں سب سے زیادہ معلومات رکھتا ہوں اور تاریخی فکشن کو میں اس وقت تک انجوائے نہیں کر سکتا جب تک مجھے یہ علم نہ ہو کہ حقیقت کیا ہے اور افسانہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے خوشونت سنگھ کا مشہور ناول دہلی میر تقی میر کے حالاتِ زندگی سے عدم واقفیت کی بنا پر پڑھنا چھوڑ دیا تھا، کیونکہ مجھے محسوس ہوا کہ خوشونت سنگھ نے زیبِ داستان کے لیے کچھ زیادہ ہی بڑھا دیا ہے۔ لیکن اب ”ان صحبتوں میں آخر“ پڑھتے ہوئے میں نے میر کی آپ بیتی ذکر میر کو بھی ساتھ رکھا، اور یوں اس قابل ہو سکا کہ فاروقی صاحب کے فن افسانہ نگاری کو یہ افسانہ پڑھتے ہوئے بہتر طور پر سراہ سکوں۔ آفتاب زمین پڑھنے سے پہلے مصحفی کے بارے میں مجھے کچھ بھی نہیں پتا تھا، لیکن اس افسانے میں بھی فاروقی صاحب نے روایتِ واقعات کے جو زاویے برتے ہیں، وہ بہت دل آویز ہیں۔ اور اب میرے پسندیدہ، غالب افسانہ کے بارے میں کچھ باتیں۔
ایک وقت تھا کہ دہلی کی درباری اور ادبی زبان فارسی تھی۔ پھر مغل بادشاہت کے زوال پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں فارسی زبان کے چراغ کی لو بھی مدھم ہوتی گئی۔ مغل بادشاہت کے آخری دور میں تو ہر مغل شہ زادہ ریختہ گوئی ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا جاننے لگا تھا۔ تاہم ہندوستان میں فارسی کی صدیوں پر پھیلی ہوئی تاریخ کے دوران بڑے بڑے فارسی شعرا پیدا ہوئے جن کا سلسلہ امیر خسرو سے مرزا غالب اور علامہ اقبال تک پھیلا ہوا ہے۔
مرزا غالب کو اپنی فارسی دانی پر بڑا فخر تھا۔ یہاں تک کہ وہ ہندوستان کے فارسی شعرا میں امیر خسرو کے سوا کسی کو مسلم الثبوت نہیں مانتے تھے۔ مسلم الثبوت سے مراد وہ شاعر ہوتا ہے جس کے شاعری میں زبان کے استعمال کی جانچ کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہ ہو، بلکہ اس کا فرمایا ہوا ہی معیارِ استناد ٹھہرے۔ مرزا غالب جن ہندوستانی فارسی شعرا کو بڑا شاعر مانتے بھی تھے ان کی بھی زبان دانی کو سند نہیں سمجھتے تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ فارسی زبان کے استعمال کے حوالے سے ہندوستانی فارسی شعرا نہیں، بلکہ صرف اور صرف ایرانی شعرا ہی سند ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے ہی بنائے ہوئے اس اصول سے مستثنا سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کے مزاج کو فارسی زبان سے جو فطری مناسبت ہے وہ ہندوستان میں اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکی۔ ہندوستانی فارسی شعرا کے بارے میں مرزا غالب کے اس رویے پر شمس الرحمان فاروقی مرحوم نے ”غالب افسانہ“ میں بڑے لطیف انداز میں نقد کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی غالب کی معنی آفری��ی اور خیال آرائی کے گُن بھی گِنے ہیں۔ ”غالب افسانہ“ ایک تاریخی ادبی افسانہ ہے جس میں ایک فرضی کردار بھینی مادھو انیسویں صدی کے وسط کے حالات و واقعات اور غالب سے اپنی ملاقاتوں کا احوال بیان کرتا ہے۔
میں نے یہ افسانہ، پڑھنے سے پہلے، جناب ضیا محی الدین کی آواز میں مقتبساً سنا تھا۔ انھوں نے تعارف کے طور پر جو باتیں کہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھینی مادھو کو ایک حقیقی شخص اور اس افسانے کو ایک واقعاتی تحریر سمجھے تھے؛ بلکہ وہ بھینی مادھو کا نام بھی بھینی ”پرشاد“ مادھو بتاتے ہیں اور اس بات پر حیرانی کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ کیسی لاجواب تحریر ہے جو انیسویں صدی میں بھینی پرشاد مادھو نے لکھی تھی۔ (واضح رہے کہ اس تحریر کا افسانوی زمانۂ تصنیف بھی انیسویں صدی نہیں، بلکہ بیسویں صدی کا شروع ہے)۔ اب اس میں ميرا کیا قصور جو میں ایک عرصے تک بھینی ’پرشاد‘ مادھو اور اُس کی اس واقعی لاجواب تحریر کی تلاش میں سرگرداں رہا؛ جب تک کہ مجھے محمد حمید شاہد کا مرتبہ ”مجموعہ شمس الرحمٰن فاروقی“ نہ مل گیا۔
شمس الرحمن فاروقی صاحب اٹھارویں صدی کی دہلوی ادبی تہذیب کو کیوں اجاگر کرنا چاہتے تھے، انھوں نے لکھا ہے کہ ”مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہماری پرانی ادبی تہذیب ہمارے حافظے اور علم سے تقریباً غائب ہو چکی ہے۔ اگر یہ وقت کی سطح سے نیچے اتر کر ڈوب گئی تو ہمارا نقصانِ عظیم ہو گا، اور اس کی بازیافت تو خیر ممکن ہی نہ ہو گی۔ جن تہذیبوں کا ماضی نہیں، ان کا مستقبل بھی نہیں۔ اردو ادب و تہذیب کو فراموش کر دینے، اسے پایۂ اعتبار سے ساقط تصور کرنے یا ساقط قرار دلوانے کی جو کوششیں ملک میں جگہ جگہ ہو رہی ہیں ۔۔۔ ان کو دیکھتے ہوئے یہ اور بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے تاریخی حافظے کو زندہ رکھیں، اور اپنی ادبی تہذیب کو جاندار، قائم رہنے والی، اور آج بھی بامعنی حقیقت کے طور پر پیش کریں۔“
کیا فاروقی صاحب کو اپنی ان کاوشوں کا ثمر ملا؟ ”ان افسانوں کو میری دور ترین توقعات سے زیادہ پذیرائی ملی ۔۔۔ میں اسے اپنی کامیابی سے زیادہ اہلِ اردو کی کامیابی سمجھتا ہوں کہ انھیں اپنی ادبی تہذیب کے مظاہر سے لگاؤ ہے، اور وہ اپنے تاریخی اور ثقافتی حافظے کو گنوانا نہیں چاہتے اور مجھے امید ہے کہ وہ مجھے بھی اس خدمت کے لیے دعائے خیر سے یاد کریں گے۔“ Sawaar aur Doosrey Afsaaney [سوار اور دوسرے افسانے ] یہ کتات نہیں، تحفہ ہے۔
آفتاب زمیں ہوں میں، لیکن
مجھ سے روشن ہے آسمان سخن
(دیوان نہم) Sawaar aur Doosrey Afsaaney [سوار اور دوسرے افسانے ]
A collection of five stories by the renowned Urdu critic and author Shamsur Rahman Faruqi. Sawaar aur Doosrey Afsaaney [سوار اور دوسرے افسانے ]