Raat Chor aur Chaand / رات، چور اور چاند By Balwant Singh
ایک بدمعاش کے عشق کی داستان۔ بلونت سنگھ کا ایک شاہکار ناول۔ Raat Chor aur Chaand / رات، چور اور چاند
download ✓ eBook, PDF or Kindle ePUB ¿ Balwant Singh
جن قارئین نے بلونت سنگھ کا ناول، چک پیراں کا جسا، پڑھا ہے، انھیں رات چور اور چاند کی شروعات میں موخرالذکر کی جھلک ملے گی. اُٹھان کی مشابہت کے باوجود ناول کی کہانی الگ دھارے میں جا گرتی ہے۔
بلونت سنگھ ان چنیدہ پنجابی سکھ لکھاریوں میں شامل ہیں جن نے اردو میں تصانیف کیں. ان کو ان کے حصے کی پذیرائی نہ ملی. ان کے ناول پنجاب کی زندگی کی بھرپور عکاسی تو کرتے ہیں مگر وہ پنجابی زندگی کا ایک دیومالائی عکس پیش کرتے ہیں. ان کے پنجابی کردار قدیم رزمیہ داستانوں کے کرداروں کی طرح عام انسانوں سے الگ تھلگ نظر آتے ہیں. اس ناول میں انھوں نے انسانی سرشت کو عقلی ہتھکنڈوں سے ابتدال کے ہلکورے کھاتے دکھایا گیا ہے۔ Raat Chor aur Chaand / رات، چور اور چاند Superb book Raat Chor aur Chaand / رات، چور اور چاند رات، چور اور چاند از بلونت سنگھ، آزادی سے قبل پنجاب کی عکاسی کرتا ہے۔
زر اور زمین سے وابستہ زن ہے جو اس کے بغیر باعزت طریقے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ ناول کے مرکزی کردار پالی سنگھ کے پاس نہ زر ہے اور نہ ہی زمین۔ شہر سے بھی خالی ہاتھ گاوٴں آگیا ہے اور دل ایک مرکزی کردار سرنوں کو دے بیٹھا ہے۔ اسی لاحاصل جستجو کے گرد یہ ناول گردش کرتا ہے۔ انجام کو جاننے کے لئے اسکا مطالعہ شرط ہے۔
بلونت سنگھ پنجاب کے دیہات کا کوئی رومانوی تصور نہیں دیکھاتا۔ اس کے کردار ڈاکے مارتے ہیں، جوا کھیلتے ہیں، عزتوں کی پامالی کرتے ہیں اور قتل بھی کر دیتے ہیں ___ !!!
اردو اور پنجابی زبان دونوں کا استمعال کیا گیا ہے۔ کہانی بیان کرنے میں بلونت سنگھ کو ملکہ حاصل ہے۔ کردار زندگی کے قریب تر اور انداز نہایت بےباک ہے۔ احمد ندیم قاسمی اور منشی پریم چند سے مختلف ہیں۔
352 صفحات کے ناول کو سنگ میل پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔ قیمت اسکی 800 روپے ہے۔
از فیصل مجید Raat Chor aur Chaand / رات، چور اور چاند
کنیاں مسافراں نوں میں اج تک پار لایا
اللہ دی قسمیں اک وی تیرے جیا نہیں آیا
. . . . . . . . . . . . . . ۔
بلونت سنگھ اردو کا بانکا افسانہ نگار اور ناول نگار ۔ رات چور اور چاند انکا لازوال ناول ہے اور اس ناول میں بلونت کا فن عروج پر ہے اگر کسی نے بلونت کی روح دیکھنی ہو تو وہ رات چور اور چاند کو پڑھے ۔ ناول پر مصنف کی گرفت کسی بھی جہگہ ڈھیلی نہیں پڑی ناول پڑھتے وقت پنجاب کےایک گاوں کا منظر نظر آنے لگتا ہے اگر ایک دفعہ اس ناول کو شروع کر دے تو وہ اسکے ساتھ بہتا ہی چلا جاتا ہے اس ناول میں پنجاب کا جمال ، پنجاب کی بے باکی ،اور پنجاب کی خوشبو رچی بسی ہے ناول کا مرکزی کردار پالا سنگھ عرف پالی ہے جو ایک طاقت ور نوجوان ہے
میرے نزدیک تو ناول کا مرکزی خیال یہی ہے کہ انسانی فطرت نہیں بدلی جاسکتی انسان چاہے کتنا ہی شرافت کا ڈھونگ رچا لے ایک نا ایک دن وہ اپنی اصلیت ظاہر کر ہی دیتا ہے اور یہی ناول کا اختتام ہے Raat Chor aur Chaand / رات، چور اور چاند کَوڑے کُھوہ نہ مِٹھے ہوندے باہُو
توڑے سو من کھنڈ دا پائیے ہُو
انسانی فطرت مختلف النوع خباثتوں اور کمزوریوں سے عبارت ہے اور کہا جاتا ہے کہ فطرت بدلی نہیں جا سکتی۔ ۔ ۔ یہی اس ناول کا مرکزی نکتہ ہے جو میری سمجھ کے مطابق سجھائی دیا۔
وطن عزیز میں بلونت سنگھ کو نجانے کیوں اردو پڑھنے والوں نے بھلا دیا ہوا ہے۔
دیہی پنجاب کو موضوع و پس منظر احمد ندیم قاسمی صاحب نے بھی بہت بنایا اپنے افسانوں میں، مگر جو اسلوب اور بیانیہ بلونت کا اس ناول میں ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یوں مانو پنجاب کا ایک گاؤں نظروں کے سامنے جیتا جاگتا دکھائی دیتا ہے۔ منظرنگاری میں معمولی جزیات تک سے صرف نظر نہیں کیا گیا۔ ناول کی زبان بھی خاصی 'مردانہ' قسم کی ہے مگر ماحول کی مناسبت سے شاید یہ ضروری بھی تھا کہ ناول کے مرکزی و دیگر کردار اجڈ اور بدمعاش پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔
مرکزی کردار پالی، ایک صاف دل، قوی جوان مگر چور اچکا، جو اپنے بچپن کی ساتھی سرنوں کی محبت میں گرفتار ہو کر اصلاح احوال کی منزلوں کا راہی بنتا ہے مگر انجام کار فطرت رنگ لاتی ہے۔
عموماً اردو ناولز میں دیکھا ہے کہ کئی ضمنی تھیمز بھی ناول میں سموئے جاتے ہیں مگر یہ اس ناول کی خوبی کہیں کہ اس میں محض ایک تھیم، ایک کہانی ہے۔ ۔ ۔ ایک ہی قصہ جو بہتے پانی کی مانند بہے چلا جاتا ہے۔ بلونت نہ تو کوئی سماج سدھار کی کوشش میں نظر آتے ہیں، نہ ہی فلسفیانہ پیچیدگیاں مکالموں میں پروتے ہیں۔ بس ایک ہی داستان ہے جو روایتی انداز سے شروع ہوتی، بڑھتی، ایک بڑے غیر روایتی انجام پر منتج ہوتی ہے۔
اردو ناولز میں ایک خوبصورت ناول۔ Raat Chor aur Chaand / رات، چور اور چاند منظر نگاری اور پنجاب کے دیہات کے مناظر خوب تھے۔ لیکن اس کے علاوہ کچھ اچھا نہیں اس ناول میں یا شاید یہ ناول میرے لیے نہیں۔ یہ ناول اٹھایا تو کہانی کا کچھ زیادہ علم نہیں تھا۔ نام سے یوں لگا کسی چوری اور پھر پولیس مقابلے ، کشمکش پر ہو گی۔ لیکن ایسا کچھ نہیں۔ چوری کا ذکر صرف ایک باب میں ہے اور اس سارے واقعے کا اس باب کے بعد آگے کہیں ذکر نہیں گویا وہ ایک عام سا واقعہ تھا۔ جس طریقے سے خواتین کا ذکر ہوا ��ہ غیر مناسب ہے۔ جو تھوڑا بہت رومانوی حصہ ہے وہ اس سے بھی زیادہ بیکار ہے۔ کسی حد تک شاید یہی دکھانا بھی مقصود تھا۔ جو مجھے سمجھ آیا مصنف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ انسان کی فطرت بدل نہیں سکتی لیکن پھر پھر بھی بہت عجیب سا تھا۔ اس کو پڑھ کے بالی وڈ کی نوے کی دہائی کی فلمز یاد آگئی جس میں ہیرو رومانس کے نام پر ہیروئن کو ہراساں کرتا رہتا تھا۔ کبھی بیچ اسٹیشن پر پرس چھین لیا کبھی سڑک پر اپنے دوستوں کے ساتھ ہیروئن پر آوازیں کسنا شروع کر دیں۔ مجھے آج تک ان فلمز کی سمجھ نہیں آئی اور نہ اس ناول کے رومانس کی سمجھ آئی۔
پالی جو اس ناول کا مرکزی کردار ہے وہ بیچ رستے میں ہیروئن (سرنوں) کو بانہوں میں لینے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اگلے باب میں پالی کی بھابھی سرنوں کو دھوکے سے پالی سے ملاقات کے لیے لاتی ہے۔ مطلب یہ ہو کیا رہا ہے؟
کہانی میں کوئی خاص ربط نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں ان کو ملا کر ایک کہانی تخلیق کی ہے۔ بلونت صاحب کا کوئی اور ناول ذرا دیکھ بھال کے اٹھاؤں گا۔ Raat Chor aur Chaand / رات، چور اور چاند تبصرہ کتاب
رات،چور اور چاند (بلونت سنگھ )
بلونت سنگھ اردو ادب کا مایہ ناز ناول نگار اور افسانہ نگار ۔ناول رات چور اور چاند میں بلونت کا اسلوب تحریر کمال کا ہے۔ ہر فقرہ پڑھنے کے لائق، ہر جملہ داد کا مستحق۔ پورے ناول میں کسی موڑ پر بھی مصنف کی گرفت ڈھیلی نہ ہوئی۔ بس ایک روانی سے کہانی چلتی جاتی ہے اور آخر تک قاری کا شوق قائم رہتا ہے۔ کسی بھی مقام پر اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔ ۔اردو ادب کا ایک قیمتی ناول۔
ویسے تو کئی مصنفین نے پنجاب کا حال بیان کیا ہے لیکن جو احوال بلونت کی تحریروں میں ملتا ہے اس کی مثال نہیں۔ قاری ایک ایک منظر اپنی انکھوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھتا ہے اور خود کو پنجاب کے دیہاتوں میں چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔ بلونت کے نزدیک پنجاب ایک ہنستا مسکراتا دیس ہے۔ محبت کی شدتیں،نفرت کی جولانیاں ،میلے،ٹھیلے،اکھاڑے،کشتیاں،ڈاکوؤں کی زندگی، سانڈنیوں کا حملہ غرض ہر وہ چیز جو پنجاب کی نمائندگی کرتی اس ناول میں ہے۔
ناول کا مرکزی کردار پالا سنگھ ہے جو اپنی محبت سرنوں نامی لڑکی کے لیئے اصلاح کی کئی منازل طے کرتا ہے لیکن آخرکار انجام کار فطرت ہی ہوتی ہے۔
اس ناول کا بنیادی سبق یہ ہے کہ انسانی فطرت کا بدلنا اگر ناممکن نہیں تو نہایت مشکل امر ہے۔ انسان اپنی فطرت کو بدلنے کے لئے کافی تگ و دو کرتا ہے لیکن آخرکار فطرت ہمیشہ غالب رہتی ہے ۔ Raat Chor aur Chaand / رات، چور اور چاند amazing!! completed almost the whole novel in a day after a long time. In fact, the last such absorbing novel was probably Arundhati Roy's The Ministry of Utmost Happiness. The most amazing attribute was of course how seamlessly the prose flowed through the rich rural landscape of Punjab through the principal characters. Unfortunately, I was robbed of some of the suspense by the absolute spoiler of a description at the back of the novel. Even then, Balwant Singh has written this story with some amazing craft that it was difficult to believe, at times, in the imminence of the impending tragedy. At the same time, the ending is one of the remarkable bits of the novel. Even though it did somewhat spoil the innocence of the tragedy, it attested to the realistic and consistent characterization by the author of the protagonist and prevented it from becoming a romantic soap. Among other aspects of Punjabi culture is portrayed, the dialogues I read with particular relish. In particular, the banter and repartee, which are a trademark of Punjabi conversation, were so naturally interwoven that even the humdrum bits of the story did not seem drab. All in all, a novel that needs to be acclaimed more and more. Raat Chor aur Chaand / رات، چور اور چاند