Mutriba / مطربہ By Qateel Shifai

Mutriba

اس بازار کا جو کوٹھا ہے اس کی رِیت نرالی ہے
یہاں ماں کو ماں کہہ دینا سب سے گندی گالی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تجھے گلاب کے پھولوں سے یوں بھی ہے الفت
کہ وہ بھی صرف بہاروں کا ساتھ دیتے ہیں
خزاں رسیدہ چمن میں اگر صبا نہ رہے
تو بس وہ اپنے ہی خاروں کا ساتھ دیتے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم ڈوب گئے جاگتی راتوں کے بھنور میں
ہاتھ اس کا ہمارے لئے پتوار ہی کب تھا
مشہورِ زمانہ ہیں قتیل اس کی اڑانیں
وہ دامِ محبت میں گرفتار ہی کب تھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

قتیل شفائی سے یہ پہلا تعارف بہت جاندار رہا۔ اگرچہ شاعری کے معاملے میں میرا حال بندر اور ادرک والا ہے مگر شاعر کے فن کی داد دینی پڑتی ہے کہ مجھ ایسے سخن ناشناس کو بھی بہت متاثر کیا۔
کتاب کی تمام نظمیں ایک ہی موضوع کے گرد مطوف ہیں: مطربہ یا طوائف۔ اردو شاعری میں موضوعاتی یکتائی کا یہ انداز پہلی مرتبہ دیکھا۔ طوائف کو اتنے زاویوں سے برتا گیا ہے کہ ندرتِ بیان پر حیرت ہوتی ہے۔
نظموں کا کینوس کوٹھے سے کشید کردہ مشاہدات سے رنگا رنگ ہے۔ موضوعات ایسے اچھوتے اور الفاظ کی بندش ایسی نپی تلی کہ بے اختیار منہ سے واہ واہ نکلتی ہے۔
جیسے کہ معصوم اولاد کا طوائف سے اپنے باپ کے بارے میں سوال کرنا۔ اس دلہن کا حال جو رخصتی سے پہلے یتیم کی ماں بن گئی۔ کسی امیر گاہک کی آمد کے ساتھ ہی طوائف کی اپنے 'محبوب' سے طوطا چشمی۔ شاعر کے محبت بھرے گیت جو محبوبہ طوائف اپنے تماش بینوں پر لٹاتی ہے اور شاعر ملول رہ جاتا ہے۔ ۔ ۔ ایسے و دیگر اچھوتے موضوعات کو شاعری کی زبان میں کہنا نہ صرف کمال فن کی معراج ہے بلکہ قتیل شفائی کے گہرے مشاہدے کی بھی دلیل ہے۔
اردو شاعری و بازار حسن میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ ضرور پسند آئے گی۔ 80

Mutriba / مطربہ

characters Mutriba / مطربہ