Teesre Paher Ki Kahaniyan / تیسرے پہر کی کہانیاں By Asad Muhammad Khan

دل نشین نثر اور اس میں خاموشی سے بہتی ہوئی کہانیاں۔ اس مجموعے میں صنوبر کی کہانی بار بار پڑھنے پر بھی تازہ بہ تازہ معلوم ہوتی ہے۔ Paperback Another collection of unusual Urdu writings. Paperback

Teesre

Asad Muhammad Khan Õ 9 Characters

Teesre Paher Ki Kahaniyan / تیسرے پہر کی کہانیاں

کافی دنوں کے بعد اردو کی کوئی کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔ جاڑے کی رُت میں اس اسد محمد خان کی نثر پڑھ کے اک عجیب سی فرحت ملی۔ یہ کتاب کہانیوں کا ایک مجموعہ ہے جس میں ہر کہانی اپنے اندر ایک دنیا بسائے ھوئے ہیں۔ اسد محمد خان سے مرا یہ پہلا تعارف تھا مگر انکی خوبصورت نثر پڑھ کر اب انکی اور کتب بھی پڑھنا واجب ہوگئی ہے۔ Paperback A medley of various stories,story-like essays,letters and scathing social and political satire and translations.A couple of historic and autobiographical stories with complicated dimensions. The word play and fiction is unique which is the hallmark of Asad Muhammad Khan's stories. Paperback This volume demonstrates once more Asad Ahmad Khan's versatility and multifariousness as a writer.

For me the most memorable stories are the historical ones where he masterfully weaves facts, myth, tradition and informed speculation and brings to life an era through immaculate and atmospheric detail of description and joyful use of dialects. Foremost is Darulkhilafay aur Loag about the Feroz Shah Tughlaq era; his scheme to incentivize citizens to write out notes pardoning his predecessor Muhammad Tughlaq for his excesses (which are to be buried besides his grave and to hopefully come to his aid on Judgment Day; the defiant young woman who wants to leave a letter condemning him instead for all the personal loss she attributes to him, and the mysterious man who comes to her aid in the heart of royal sphere of influence. Quite apart from capturing an era it is a poignant and hard-hitting story about despotism in general, the vast and cruel displacement caused by grand royal projects and conquering sprees, and the eventual anxiety even on part of the conquerors to not be remembered as tormentors. Another delightful historical story is Roopali that is set in magical Mandu all the way down South in the era of Sher Shah Suri and provides a contrast as under a just ruler life is gentler and easier for many and criminals find the going much tougher. The characters of the child traffickers are well drawn and the dialogue is delicious. Khilti Dhoop Ujlay Sayay uses an episode to once again extol Sher Shah Suri.

Aun Muhammad Wakeel, Bebe aur Kaka is a plainly told but very powerful story about challenges faced by an entrepreneurial single woman raising a child, a two-faced and manipulative cleric, a fickle society and the fact that how convenient it is for personal vendetta to proceed unobstructed under the guise of religion and piety and employing false accusations of sacrilege and blasphemy.

Tasveer sai nikla huwa Admi is stylistically and thematically a very different story with strong symbolism. It is about a mysterious - and as it turns out, repeatedly exploited - woman who lives in the wilderness, in outwardly great comfort, with her pet Cheetah.

Sheher-e-Murdagan provides the interesting narrative of how Asad Muhammad Khan - also a prominent screenplay writer - co-wrote the script of the famous historical TV serial 'Shaheen,' endeavoring to balance the rather agenda driven and self-serving (both by the author and his benefactor the dictator Zia) historical romance novel set in the last days of Granada.

Aik Tehreer - Ivo Andric translates a short and harrowing passage by Yugoslav Nobel laureate Ivo Andric about the brutal impalement of a Muslim by a group of Serb soldiers.

There are seven additional pieces that range between political satire on US President George Bush's colonoscopy as well as on post-colonial efforts in Britain to teach young students about the 'glorious past,' a massacre in Sindh and strident official attempts to underplay it, a tale of revenge by a garrulous storyteller, a poem about migration and getting to know and be accepted by a new Great River, a strange arbitral award in a tribal setting, and a humorous rendition of personal experiences as a story writer who would rather just write stories but has to pay the bills by writing TV screenplays.

I have also reviewed other books of short stories by Asad Ahmad Khan on GoodReads

Khirki Bhar Asman at https://www.goodreads.com/review/show...
Narbada at https://www.goodreads.com/review/show... Paperback اسد محمد خاں کے افسانوں کو ادبی حلقوں میں بہت سراہا جاتا ہے۔ شاندار طرز بیاں، اچھوتے کردار، مختلف بولیوں کے عکاس لہجوں سے سنوری زبان اور قصہ گوئی میں خاص مہارت نے انھیں عہدِ حاضر کے ادیبوں میں ایک نمایاں مقام عطا کیا ہے۔ تاہم جب ان کی کتاب ’تیسرے پہر کی کہانیاں‘ موصول ہوئی تو اس کےحجم نےمجھے قدرے مایوس کیا۔

محض ایک سو دس صفحات کی مختصرسی کتاب دیکھ کر خیال آیا کہ نہ جانے یہ ایک تشنہ لب کو سیراب کر بھی پائے گی یا یونہی لب جو پیاس سے بلکتا چھوڑ دے گی۔ لیکن کتاب پڑھی تو گویا ایک حیرت کدہ آباد پایا۔

کہانیاں مختصر مگر جامعیت کا شاہکار۔ اندازِ تحریر مختصر مگر اس قدر پرمغز کہ زینسر کا یہ قول یاد آگیا ’خوبصورت ترین تحریر وہ ہوتی ہے جس میں کوئی بےمصرف یا غیر موزوں لفظ نہیں ہوتا۔’ خیال آیا کہ اس ۲۲۰۰ حروف کی حد بندی میں خاک لکھا جاتا ہے ہم سے، اگر اسد محمد خان سے یہ ہنرسیکھ کر انسٹا کےکیپشن لکھے جائیں تو کمال نہ ہوجائے!

ان کی یہ کتاب مختلف النوع اصناف سے مرصع ہے۔ افسانے ہیں کہ کبھی تاریخی اور کبھی معاشرتی رنگ میں رنگے ہوئے، سیاسی پہلودار مزاح بھی ہے، آپ بیتی کی چاشنی بھی ہے اور خطوط نما مضامین کا ذائقہ بھی۔ یہ کہانیاں نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ ان کے موضوعات میں بھی بڑا تنوع ہے۔ موضوعات کا یہ تنوع، ہمیں ان کے مطمع نظر کی نیرنگیوں اور فکشن کی طرح دار جہتوں پر ان کے انوکھے تجربات سے روشناس کراتا ہے۔

تاریخی کہانیوں میں فیروز شاہ تغلق اور شیر شاہ سوری کے ادوار کی زبان اور جاندار منظر نگاری ایک نامحسوس طریقے سے قاری کو گئے دنوں کے سفر پر لے جاتی ہے۔ پھر ایک تنہا جوان بیوہ کی کہانی، جس پر محلے کے مولوی کے پیغام کو ٹھکرادینے پر گستاخی کا جھوٹا الزام لگا کر معاشرے کا سیاہ چہرہ اس بے دردی سے بےنقاب کیا جاتا ہے کہ قاری نہ صرف حال میں لوٹ آتا ہے بلکہ اپنے آپ کو اسی قعرِ مذلت میں گرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ایک یوگوسلاوی مسلمان پر سرب سپاہیوں کے غیر انسانی تشدد کی ہولناک داستان کا ترجمہ ہے، جس نے ماضی کے زخم بڑی ہی بے دردی سے کرید کر رکھ دیے۔ اور ایک عورت کی عجیب کہانی جو ویرانے میں ایک چیتے کے ساتھ رہتی ہے۔ غرضیکہ قاری ان کہانیوں کی بدولت کئی صدیوں کا فاصلہ محض ایک ہی جست میں طے کر لیتا ہے۔

گزرتے لمحوں کے ساتھ انسانی زندگی کےہر آن بدلتے نو بہ نو رویے، جن کا تغیر امتداد زمانہ سے مشروط بھی نہیں ہوتا۔ یہی رویے اس کتاب کے موضوعات ہیں،اور کیا خوب موضوعات ہیں! انھیں پڑھ کر ہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس طرح ایک ماہر مجسمہ ساز مخصوص زاویوں پر بڑی ہی نپی تلی ضربیں لگا کر ایک شاہکار تخلیق کرتا ہے۔ Paperback بے حد کو کتنی دفعہ لکھوں کہ وہ ’بے حد‘ ہوجائے؟ ۔ ۔ ۔ جتنی مرتبہ آپ ضروری سمجھتے ہیں اتنی تعداد میں بے حد لکھ کر کہنا چاہوں گا کہ کتاب ’بے حد‘ پسند آئی۔

اسد خاں صاحب کا انداز ایسا میٹھا ہے لکھنے کا کہ جرعہ جرعہ چسکیاں لیتے پڑھتا چلا جائے انسان۔ گو کہ زبان تھوڑی مشکل لکھتے ہیں مگر اتنی مشکل بھی نہیں کہ بار بار پڑھنی پڑے۔ اس پر چیریز آن ٹاپ افسانوں کے موضوعات؛ کبھی ماضی میں لے جاتے ہیں جہاں فیروز تغلق رعایا سے معافی نامے خرید رہا ہے(دارلخلافے اور لوگ)، تو کبھی سوری دور کی شراب کی بھٹی میں ایک دلال سے ملاقات کرواتے اور اس کا عبرت ناک انجام لکھتے ہیں(روپالی)۔ یا ایک الف زئی نوجوان کا قصہ جو قتل کی ثالثی میں ایک دلچسپ فیصلہ سناتا ہے(اپنے لوگوں سے سنی ایک شگفتہ کہانی)۔ ۔ ۔ ماضی کو پیش اس طرح کیا ہے کہ کردار، ان کی بولی، اردگرد کا ماحول، کچھ بھی نامانوس نہیں لگتا جو بلاشبہ لکھنے والے کے تخیل اور قلم کا کمال ہے۔
جاہل انا و انتقام کا قصہ ’عون محمد وکیل، بےبے اور کاکا‘ تو ہر مولوی کے سلیبس میں داخل کرنا چاہیئے۔ بے حد پُر اثر افسانہ ہے۔
ان کے علاوہ چند نیم مزاحیہ انداز کے شذرے بھی شاملِ مجموعہ ہیں جو دلچسپی قائم رکھتے ہیں۔
لندن کا ایک مختصر دلچسپ سفرنامہ بھی ساتھ ہے (گنجے ایڈورڈ کا سورج) جو مکتوب کی شکل میں لکھا ہے۔ اس میں ریڈ لائٹ ایریا ’سوہو‘ (بقول اسد خاں صاحب کہ جو بھی اس کوچے میں چلا جائے تو بس جو ہو، سو ہو!) کی مٹرگشتیوں کا احوال بہت اچھا لکھا ہے۔ (یہاں یہ کہنا کہ ’مجھے بہت پسند آیا ہے‘ کچھ نامعقول سا لگتا ہے اس لئے الفاظ گھمانے پڑے)۔
الغرض قصہ مختصر، اس سال پڑھی گئی نہایت پسندیدہ کتابوں میں شامل ہوگئی ہے یہ کتاب۔ اچھے اردو ادب کے قارئین بھی اسے ضرور ٹرائی کریں۔

پس نوشت: ہمدمِ ہمنام جناب سلمان طارق طبیب کے لئے دعا گو ہوں کہ انہوں نے تحفتاََ کتاب دے کے نیکی کا کوئی کام کیا۔ Paperback