Agay Samandar hai / آگے سمندر ہے By Intizar Husain
اس ناول کا وقوع نوے کی دہائی میں فسادات شدہ کراچی ہے اور کہانی یوپی کے مہاجرخاندان کے گرد گھومتی ہے اور اس کا اچھوتاچ بیانیااس کا موازنہ اسپین میں مسلمانوں کے زوال سے کرتی ہے ۔میرے جیسے لوگ جنہوں نے زندگی کا ایک اہم واقعہ حضرت اس زمانے کے کراچی میں گزارا ناول نوبل کے دہشت اور سے ریلیٹ کرے گے۔ کراچی کے باہر کے لوگ جنکو یہ اچھنبہ تھا کہ ایسے خونی ماحول میں بھی کراچی والوں کی زندگی کیسے جوں کی تو ں چلتی رہتی تھی وہ یہ ناول ضرور پڑھیں۔ کرفیو لگتا رہتا تھا ،گولیوں کی بوچھا ڑ ہوتی رہتی تھی اور اسی میں کباب پراٹھے کی محفلیں اور مشاعرے زور وشور سے جاری رہتے تھے ۔
اور جو لوگ انتظار صاحب کے ناسٹلجیا کے پڑھنے کے شوقین ہیں وہ مایوس نہیں ہوں گے ۔کیونکہ زیادہ تر کہانی میں ہیرو پہلے اپنے چھوڑے ہوے یوپی کے شہر اور لوگوں میں یاد کرتا ہے اور پھر واپس اپنے شہر کو وزٹ کرتا ہے اور اسے اپنی یادوں سے بدلا ہوا پاتا ہے ۔ Intizar Husain Quiet a boring read, a piece of fiction that lay emphasis more on characterization rather then the plot always repels me, this novel by famous and respected writer Intezar Hussain is based on the Mohajir community of Karachi some where in 90's the writer has tried to prove that what ever they are facing in present day Pakistan is due to their decision to migrate from their ancestral home land India to Pakistan, he could have presented the case effectively has he tried to use the events as the instrument of movement instead he focused on certain characters, their monologues their over indulgence with nostalgia and the language which is quiet obsolete now a days .
my reading into Intezar's writing is that he is excellent in non fiction then his fiction pieces.
will go into more of his fiction to further confirmation of my stance on his writing Intizar Husain If you have read Manto, you know the absurdity and the tragedy of India-Pakistan Partition. But rarely do we come across works that talk about the lives of people who moved to Pakistan from India ('Muhajirs') - people who were uprooted overnight from places like Meerut, Lucknow and Delhi.
In Intizar Husain's novel, a community of mushaira (poems) loving middle-class community of Muhajirs come to terms with their new life in Karachi. As Karachi slowly descends into religious terror and mayhem, our protagonists mull over the history they left behind in India. It is difficult to categorize their longing as nostalgia. It is more of a melancholic feeling of having left behind something that you cannot return to. A feeling of being stuck in a limbo - of not having moved on from the place they left and not having arrived at the place they have reached.
With these people's tales, Husain mixes the history of all the people who have faced exodus - Muslims leaving Andalusia, the Prophet migrating to Mecca and a beautifully rendered phase of Yadavas leaving Mathura for Dwarka from Mahabharatha. As the introduction of the book notes, Husain unwraps wound after wound that has left unnoticed after the partition and subsequent migration of Muhajirs. Intizar Husain انتظار حسین نے یہ ناول کراچی کے مہاجروں کی دلی اور دماغی کیفیت پر لکھا ہے۔ اپنا شہر، گھر بار، خاندان چھوڑ کر بلکل نۓ سرے سے شروع کرنا کتنا دردناک ہوتا ہے، مصنف نے جواد کے کردار کے زریعے بیان کیا ہے۔ جواد عرف منن پاکستان میں اپنی قسمت آزمانے آتا ہے اور وہاں چلبلے مجو بھائی کی گرفت میں آجاتا ہے۔
مجو بھائی بہت ملنسار ہوتے ہیں اور ان کی واقفیت ہر ذات اور علاقے کے مہاجروں سے ہوتی ہے۔ وہ جواد کا تعارف ہر طرح کی شخصیت سے کرواتے ہیں۔ جواد اپنی نئی زندگی میں ایسا مصروف ہوتا ہے کہ اپنے ہندوستان کے رشتےداروں کو بھول جاتا ہے اور اس کو بہت سالوں بعد ان سے ملنے کا خیال آتا ہے۔ اور یوں وہ اپنے آبائی گھر واپس جا کر یادوں کے انبار کے نیچے دب جاتا ہے۔ دوسری طرف کراچی کے حالات دن بدن بگڑ رہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جواد اور زیادہ متاثر ہوتا ہے۔
پورے ناول میں جواد اپنے آپ سے جنگ لڑ رہا ہوتا ہے اور ڈراؤنی اصلیت سے بھاگنے کے لیے ماضی کا سہارا لیتا ہے۔ اس کتاب میں بٹوارے کے کڑوے سچ اور آزادی کی قیمت پر تبصرہ کیا ہے۔ لیکن اس میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ مزاحیہ پہلو بھی شامل ہیں۔ Intizar Husain I found the translation I read to be almost unreadable, there are a lot of parts of this book that need a fair amount of cultural translation and this book just left me very confused, I could feel that I was missing something, there where all these jokes and allusions to things that just made no sense because I lacked context, I'm going to try another book by the writer, but I would stay away from this translation/translator unless you have a clear understanding of Pakistani culture (in which case the jokes are probably awesome) Intizar Husain
Read ´ eBook, PDF or Kindle ePUB ´ Intizar Husain
تقسیم کے بعد کے حالات پر لکھا گیا ایک ناول۔ Agay Samandar hai / آگے سمندر ہے
شروع سے لے کر آخر تک اس ناول نے مجھے اپنے سحر میں ��یے رکھا ہے، جواد(مصنف) ایک ایسا شخص ہے جو ہجرت کر کے پاکستان آتا ہے اور وہاں مجو بھائی اْسکی مدد کرتے ہیں، سارے ناول میں جواد کو ماضی کی یادیں ستاتی رہتی ہیں، یادوں کی ایسی تان بان ہے کے ایک یاد دوسری یاد میں مکس ہو جاتی ہے اور پھر ایک یاد سے دوسری یاد اور پھر دوسری سے تیسری یوں یادوں کی ایک لڑی شروع ہو جاتی ہے جو ایک گلی سے نکل دوسری گلی، اس نگر سے ہوتی ہوئی اْس نگر ، کریہ کریہ گھومتی قرطبہ پہنچتی ہے، واہان سے غرناطہ، واہاں سے اشبیلہ، واہاں سے بغداد اور چل سو چل۔۔۔ مانسرور چھیل،میتھرا نگری اور پھر کتنے ہی کردار ، ابن حبیب، عبدللہ، گنیش، مہاراج گورو شمبھو، نریندر۔۔۔۔پھوپھی امان، بڑی بھابی، چھوٹی ماں، خیرل بھائی، شنکر، چھوٹے میاں۔۔۔۔بشو بھائی، باجی اختری، توصیف، مرزا صاھب، رفیق صاھب، اقن میاں، اچھی بی۔۔۔اور عشرت اور میمونہ بھی۔۔۔ غرض جواد ماضی میں رہنے والا ایسا آدمی ہوتا ہے جو بظاہر اپنے نجی ماضی کی یادیں پورے جہاں کی یادوں سے خلط ملط کر بیٹھتا ہے، ایک سفر کرتا ہے وہ بھی ادھورا اور پھر وہ سفر آخر تک ناگ بن کر ڈھستا رہتا ہے، کراچی جس شہر میں وہ آباد ہے وہ دن بدن اجڑتا جا رہا ہے، لاشیں گر رہی ہیں ، گولیاں چل رہی ہیں، بینک لوٹے جا رہے ہیں، اور موت رقص کر رہی ہے اور ہاں لیکن مشاعرے ہیں کے رکنے کا نام نہیں لیتے اور مجو بھائی ہیں کے محفل سے باز نہیں آتے،،،،،،، ایک گولی جواد کی نطر ہوتی ہے تو ایک بم مجو بھائی کے نام!!! اوم تت ست!! Intizar Husain A story about a young man who has just made the trip of his life, giving up his birthplace in India for a dream country, called Pakistan. Starting from scratch in the newly established city of Karachi, which before Partition was relatively unknown, but after the Partition is suddenly boosted by huge number of emotional and spirited Muslims ready to lead from the front. The only issue is that the past still hounds each and everyone of the new patriotic imported Pakistanis which pulls them back, forcing them to question their migration decision. The question becomes even more pronounced with the rapid demise of law and order in Karachi. The author has done a wonderful job in painting a picture of the new culture of Karachi through rich characters from Lucknow, Mirath, Delhi. I loved the interactions between the progenitor and his best friend as they both strive to make sense of the chaos and melee called Karachi. The author is probably the best Urdu novel writer in Urdu at the moment in the world. Intizar Husain آگے سمندر ہے از انتظار حسین بیان کرتا ہے ان مسلم مہاجرین کی داستان جو تقسیم ہند کے بعد کراچی میں مقیم ہیں لیکن ابھی بھی انکا کچھ خاندان ہندوستان میں رہائش پذیر ہیں۔ ناول کا زمانہ 80s اور 90s میں ہونے والی بدامنی کا زمانہ ہے جو کراچی کے مکینوں نے عمومی طور پر اور مہاجرین نے خصوصی طور پر برداشت کیا ہے۔ اور اسی سانحات کو انتظار حسین نے رقم کیا ہے۔ اس درمیانے درجے کے مسلم مہاجرین کی سماجی زندگی اور خواب جن کی تعبیر کے انتظار/ بربادی کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک کردار کا خواب خلافت عثمانیہ بلکہ سلطنت سلیمانؑ کی بحالی کا ہے جس کے لئے 313 مومین کی تلاش ہے۔
انتظار حسین نے مہاجرین کے تنوع و تضادات کو نہ صرف دیکھا ہے بلکہ سمجھا بھی ہے۔ انھوں نے اتنے تلخ اور بدتر دور کی عکاسی کی اور اس دوران بھی مزاح کے عناصر کو بیان کرنے سے غافل نہیں رہے۔
یہ ناول تارڑ کے راکھ سے بہتر مجھے لگا۔ اور مشرف عالم ذوقی کی یاد بھی آتی رہی (جہاں سلطنت سلیمانؑ کی بحالی کے خواب کا ذکر ہے)
انتظار حسین کے زبان پر عبور پر کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے لیکن جدید اردو قارئین کو سیکھنے کو بہت کچھ ہے اگر شوق و ذوق زندہ ہے ___ !!!
از Faisal Majeed Intizar Husain یہ سب سے نیا، اور سب سے بڑا اور نایاب شہر
یہاں آ کے رکتے ہیں سارے جہاں کے جہاز
یہاں ہفت اقلیم کے ایلچی آ کے گزرانتے ہیں نیاز
درآمد برآمد کے لاریب چشموں سے شاداب شہر
یہ گلہائے شبّو کی مہکوں سے، محفل کی شمعوں سے، شب تاب شہر
یہ اک بسترِ خواب شہر
!دیبا و سنجاب شہر Intizar Husain I must say this book disappointed me in tons. I was longing to read this book ever since I saw it in the Liberty Books store, back in Pakistan, years back. The cover was so attractive, the Abdullah Shah Gazi’s shrine resting on the bank of Arabian Sea, while orange ball of sun giving its vibes of energy to the city. By now, I read this book, it turned out of my expectation that I held previously, well, my mistake is that I didn’t read the synopsis. I just went for it. Yet polished by vocabulary and hard structure, it made a fuss for me. It was politically incorrect, and for the most part historically as well. Why the hell were the characters retreating into reminiscences of their past in previous cities they lived? While doing nothing to erase rapid breakdown of law and order in Karachi, rather than cursing government and elevating chaos. I found it communal and chauvinist, when showing a beam of independence and freedom, it mushrooms mistrust, prejudice and apathy that author thinks a certain community faced after the event of partition. And at the beginning the prose felt confusing, date palm and stuff, why would author insert this unnecessary thing in the first place? Which doesn’t connect with the story at all. And of course then comes these dialogues;
‘It is no laughing matter. I am only saying what is correct. Don’t go by all the upstarts who go about calling themselves Karachiwalas. The true Karachiwala is one who has lived in a shanty.’
‘Then the old Karachiwalas can’t be real Karachiwalas.’
‘Yaar Jawad, this is a terrible habit! You stop me just as I am making my point. I am talking about the present lot of inhabitants. They stay in Karachi for four days and, on the fifth day, pretend to become real Karachiwalas.’
‘But, Majju Bhai, surely there must be some fault in Karachi too. One can’t stay in Lahore for four days and become a true-blue Lahoriya. And the city that was once Delhi … there, people who came from outside lived for generation after generation, yet the Delhiwalas did not accept them as true Delhiwalas. You are tracing a man’s roots in a city; whereas a city too must have its own roots.’
‘You’ve gone mad! Does a city beside a sea ever have roots? It always floats on the water.’
Point A, The true Karachiwala is one who has lived in a shanty.
Point B, They stay in Karachi for four days and, on the fifth day, pretend to become real Karachiwalas–I mean who? What does this mean? This sounds so absurd. How come a character who is migrated in here and is not been even five years of his belonging to the city say this?
Point C, Does a city beside a sea ever have roots? Does it say this? Oh god, are you for real? According to the author, the real history of Karachi is started after partition. Before that Karachi had literally no roots at all. What about Mai Kolachi, Ram Bagh, what about when Karachi was made the capital of Sindh in the 1840s in the time of Charles James Napier? And Before Partition Karachi was a Hindu-majority city and a Sindhi-speaking city as Arif Hasan says in his LSE article. What about all this history? Damn this novel is so chauvinistic. And how can author narrow down diversity in all time metropolitan city of Karachi? Which is so diverse in real and always has been. The author has one point view, is politically incorrect and of course slow storyteller. Intizar Husain