Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش By Rahim Gul
Read & Download è E-book, or Kindle E-pub Û Rahim Gul
Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش
Some books you read, some books you enjoy. BUT some books just swallowe you up heart and soul
This book is full of knowledge, thoughts, love and beliefs. We can say it one kind of travelogue along with philosophy of life. Mainly book is consisted of two main characters Amtul and Wasim while there is light touch of Atif , different tourists, hippies, a doctor and a Colonel..
This story is about two totally opposite in nature people.
Amtul who is brilliant in knowledge, thought proviking ideas while she didn't believe in human anymore not in life as well.Wasim is full of life, rich due to his father's wealth and using money to explore Pakistan, unfortunately fall in love with the girl who have no hope of life. She knows about love but ignore all the sentiments of wasim by answering all questions by her hopeless and negativity.
There are two more people who have same beliefs like Amtul and have no hope from the world. Remaing people think her as ideologically sick.
Variously when i read Amtul's thoughts i do recall my beliefs and tried to answer her queries. I highlighted various points in book which were unanswered in life and certainly i got the answers.
A mishap of life can change whole personality of a person, this novel depicted it very clearly. Reading this book actually reveals a lot of the stresses I had bottled up in my self.
But in this book firm attitude of Wasim impress me a lot, he didn't give up at any single time and ignore all things besides him. He always prefer to be with her, to turn her back towards spirit of life in her.
With each line, I found myself being unable to put the book down for even a minute.
when Amtul ask a tourist about 'saif ul Malook' lake he said i can't describe the view of it 'Go and see it by yourself' same is for other readers if you want to explore this book read it by your self and it will amaze your fantasies.
ThisBook can consider as a travelogue because the author presented an imaginative view of places and the Mountains which attract the reader. I have visited 'Nalter' and the love story of wasim and the book has completed there which made me fall in love with 'Naltar' second time.
Recommended to all people who are in love with a person or with mountains ❤ Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش ناول کو تین زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے
۱-تخلیقی پہلو سے یہ عام مہم اور اک عام سی کہانی ہے
۲-فلسفہ زندگی اور انسانی جبلت پر اٹھاے گئے سوالات اس ناول کا خاصا اور ناول کی جان بھی ہیں
۳-سفر نامےمیں الفاظ کو پرونا اک فن ہے مصنف اس میں ناکام رہا
امتل کا کردار ہر اس منفی جذبے کا استعارہ ہے جس سے انسان کی تذلیل ہوتی ہے اور قاری ناچاہتے ہوہے بھی اس کے خلاف دلائل ڈونڈھتا ہے اور مایوسی سے نفرت بھی کرتا ہے۔ دوسری طرف امتل فلسفہ کی وہ معراج ہے جو انسان کو بینادی سولات سوچنے پر مجبور کر کے ، لوگوں متاثر کرتی ہے ۔ حسن کا مقابلہ کہاں آسان ہوتا ہے، ناچاھتے ہوئے بھی جب خیالات میں حذبات کی آمیزش ہو حائے تو انسان وہ جنگ ہار جاتا ہے اور وہ کھلاڑی وسیم یے جو امید کی کرن بھی ہے ۔ اپنے پرسنیلیٹی ڈیفِسٹ کے باوجود امتل جیسے طوفان کا مقابلہ کرتا ہے اور محبت سے خیالات کی جنگ ہار دیتا ہے
جو رہم کے قابل ہے۔اس کے جذبات میں ملاوٹ نہیں ہے جو انسانی نیچر نہیں ۔
تخلیق ، تخیل اور ملسفہ پورے ناول میں اک دوسرے پر لپٹتے رہےمگر جنت سوچ و افکار کی ہی ہوِئی۔
اس ناول میں حسن کو بازارِِ مصر میں لا کرنہ زلئخائی کروائی نا یوسف کی معصومیت وزن دیا گیا اس کا قصور وار وسیم بھی ہے اور امتل بھی۔۔۔شاید مصنف فیمنزم کی طرف انکلاِئیڈ ہے
امتل کے سرخ ہونٹوں سے اختلاف ہو سکتا ، وسیم کی محبت جھوٹی ہو سکتی ہے مگر بیان کیے گئےواقعات کی سچائی سےانکار نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔۔ Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش فلسفہ حیات کے موضوع پر لکھا ناول جنت کی تلاش مجھے پسند تو آیا لیکن غلام باغ جیسے ناول کو پڑھتے ہی اسے پڑھنا ایک غلط فیصلہ تھا۔
وہ یوں کہ جہاں غلام باغ میں کرداروں کی شبیہ محض ان کی سوچ اور ان کے عمل سے ذہن میں بنتی ہے وہیں جنت کی تلاش میں 'امتل' کے حسن کو اس طرح بیان کیا جانا کہ اس کے سرخ انگور کے دانے جیسے ہونٹ اور آڈرے ہیپبرن جیس�� آنکھیں، 'ایلس ان ونڈر لینڈ' کی اس بلی کی یاد دلاتی ہیں جسے دیکھ کر ایلس سوچتی تھی کہ ’میں نے ایسی بلیاں تو بہت دیکھی ہیں جن کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں ہوتی، لیکن ایسی مسکراہٹ کہ جس میں بلی ہی نہ ہو، یہ بہت حیرت انگیز ہے۔‘
مجھے بھی کتاب میں جہاں امتل کا کردار آ جاتا، جوکہ مرکزی کردار ہونے کی باعث مسلسل آتا رہا، وہاں انگور کا سرخ دانہ اور آڈرے ہیپ برن کی آنکھیں ہی دکھائی دیتی رہیں۔
اس ناول میں امتل، اس کا بھائی عاطف اور ان کا دوست وسیم، پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی جنت نظیر وادیوں کا سفر کرتے ہوئے زندگی کی لایعنیت، موت کی بے معنویت، فطرت کی غلط بخشی، خدا کا وجود، محبت، نفرت، خیر و شر اور اس طرح کے کئی ایسے موضوعات پر سوالات اٹھاتے ہیں جو ایک سوچنے والے ذہن میں اٹھ سکتے ہیں اور ان پر مختلف پہلووں سے روشنی ڈالتے، مباحثے کرتے، ایک دوسرے کو اور پڑھنے والوں کو حیران کرتے جاتے ہیں۔
یوں ایک متجسس قاری پر ناصرف زندگی کی گہری اور گھمبیر الجھنیں کرداروں کے خوبصورت مکالموں کے ذریعے پرت در پرت کھلتی جاتی ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان حسین علاقوں کی سیر کے دوران وہاں کے اساطیر، ان کے لوک گیت، روایات اور ادھر بسنے والے شفاف جذبات سے بھرپور لوگوں کا رہن سہن، ان کی سادگی اور زندہ دلی کے بارے میں بھی معلومات اور تاریخ سے آگہی حاصل ہوجاتی ہے۔
گو کردار نگاری مجھے اتنی پسند نہیں آئی کیونکہ اس میں موجود تینوں ہی کردار کچھ غیر حقیقی سے محسوس ہوئے لیکن اس سفرنامہ نما ناول کی پرکشش منظر نگاری مصنف رحیم گل کے گہرے مشاہدے کا اور ان کی رواں تحریر اور کرداروں کے عمدہ مکالمے انکے وسیع مطالعے کا پتہ دیتے ہیں۔
اس کتاب میں قریب ہر صفحے پر کئی ایسی باتیں، کئی ایسے اچھوتے نظریات ہیں جو بار بار پڑھنے کے لائق ہیں۔
ناول سے ایک اقتباس:
’یہ حسین منظر کیوں ہوتے ہیں، کس لیے ہوتے ہیں؟ انہیں احساس کیوں نہیں ہوتا کہ وہ ہیں اور لافانی ہیں۔ ہم ان سے محظوظ ہوتے ہیں، مگرخود یہ اپنے آپ کو محسوس کیوں نہیں کرتے۔ بے حسی دیکھو کہ نوازشوں کی بارش برساتے ہیں، دوسروں کو بے خود اور سرشار کردیتے ہیں لیکن اپنی نوازشوں کی خبر نہیں رکھتے۔ اپنی نیاز اور بے نیازی کا عرفان ہی نہیں رکھتے۔' Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش رحیم گل کے سفرنامہ نما اس ناول میں زندگی کے بہت سے بنیادی سوالوں جیسے شر اور خیر، مذہب،سائنس،فلسفہ، محبت و نفرت اور اس جیسے متعدد پہلوؤں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ کہانی کے پلاٹ اور تین مرکزی کرداروں امتل، وسیم اور عاطف کی ترتیب اور تعلق بعض اوقات غیر فطری پن کا تاثر ابھارتا ہے۔ اتنی کم عمری میں بڑے بڑے دقیق موضوعات پر انتہائی عالمانہ گفتگو کرنے والی امتل زندگی کے میدان میں خود کو جہاندیدہ سمجھنے والے بہت سے شاہ زور پہلوانوں کو چاروں شانے چت کر دیتی ہے۔ جو کہ تھوڑا غیر یقینی سا نظر آتا ہے۔ چاہے وہ وسیم اور عاطف ہوں،بلوچستان کا ڈی ڈی ہو،اٹالین یا یورپی سیاح ہوں یا کرنل صاحب یا ڈاکٹر ہوں۔
اگر پلاٹ کی بنت تھوڑی مزید توجہ سے کی جاتی تو یہ ناول اردو کے کلاسیکی ناولوں میں شمار کیا جا سکتا تھا۔
تاہم فطرت کی بے پناہ خوبصورتیوں کو اپنے اندر سموئے فلسفیانہ انداز میں لکھا گیا یہ ناول پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جس میں انسانی اذہان میں پنپنے والے بہت سے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔ یہ الگ بات کہ یہ جوابات قاری کے ذہن میں مزید سوالات کو جنم دے دیتے ہیں ۔ کہانی کا اختتام ایک مثبت نوٹ پر ہوتا ہے جہاں امتل چوکیدار کی نومولود بچی کو جب سینے سے لگاتی ہے تو اسے صدائے کن کی لاریبیت پر یقین سا آ جاتا ہے اور وہ زندگی کو نئے سرے ایک نئے عزم سے گزارنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش رحیم گل: یہ جو تخلیق کا کرب ہوتا ہے ناں زندگی کا سب سے انمول سرمایہ ہے
امتل: یہی تو مسلہ ہے جوں جوں شعور بڑھ رہا ہے توں توں فتور بڑھ رہا ہے بےخبر آدمی باخبر آدمی کے مقابلے میں بہت خوش نصیب ہے بالغ نظری سارے فساد کی جڑ ہے یہی تنہائی کے احساس کا منبع ہے
امتل: آپ وہ سچ ہیں جسے سو جھوٹوں نے پروان چڑھایا ہے میں وہ جھوٹ ہوں جسے سو سچائیوں نے جنم دیا ہے
امتل: کاش میں غاروں میں پیدا ہوئی ہوتی اور غاروں میں پروان چڑھی ہوتی فکر نے مجھے جو کردار دیا ہے وہ بالکل غیر فطری ہے دنیا بھر کی تہذیبوں کا بوجھ میرے سر پر ہے میری روح اس بوجھ تلے سسک رہی ہے Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش
بے حد پیاری ،گہری اور گھمبیر کتاب ۔۔ تلاش ،فقط تلاش _ محبت کی ، وجود کی ،روح کی ، حق کی اور اپنے پیارے رب کی ۔۔
خیالات کا ایسا انبار لگا ہے کہ بس ،انسان سوچتا رہ جاتا ہے کہ کیا یہ پہلو بھی ہو سکتا ہے سوچ بچار کے لئے ۔۔
اس کتاب کا شاید کوئی ایک آدھ پیج ہی ہو گا جس کو میں نے Highlight نہ کیا ہو ۔
پاکستانی مناظر کی دلکشی کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے ، جھیل سیف الملوک کے مناظر کو پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میں وہیں پر موجود ہوں اور اس ساری خوبصورتی کو روح میں جذب کر رہی ہوں ،انسان کو اللہ پاک نے اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے ،اللہ پاک جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے ، رحیم گل کا یہ ناول پڑھ کر یہ بات اچھے سے سمجھ آ جاتی ہے کہ اگر کوئی انسان اللہ کریم سے تعلق مضبوط کرنا چاہتا ہے تو وہ اسکی بنائی ہوئی دنیا کو دیکھے ، ہر ہر شے میں اسکی قدرت رونما ہے جو انسان کے لئے حقیقت اور سچائی کے نئے باب کھولتی جاتی ہے۔۔ Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش Jannat Ki Talash is essentially a long philosophical discourse with the external appearance and loose structure of a novel and several passages that read like a travelogue. As a fictional text that is primarily concerned with exploring some of the fundamental philosophical questions confronted by humankind it is quite unique in Urdu fiction. Perhaps that is what adduced praise for it from the likes of luminaries like Ahmad Nadeem Qasmi. Through a series of dialogues between three young people - an extraordinarily reflective, attractive, thoughtful and outspoken young woman Amtal, her slightly older brother Atif and a young man in his twenties Waseem, whom they meet during a mountain excursion, Raheem Gul poses and dissects multiple enigmatic questions that confront all thinking people. The trio becomes friends and they travel together through various scenic parts of Pakistan.
Waseem's burgeoning romantic interest in Amtal is physical but also in great part due to his growing fascination for her intellectual rigor and vastness of knowledge, her outspoken questioning of various closely held dogmas, attitudes and beliefs, and ultimately her deep-seated skepticism about the purpose of human existence. Amtal is essentially cynical about human socialization and civilizational progress that she feels has ultimately led to so much exploitation, warfare and bloodshed. Her's is a hearkening to and longing for the original natural and simpler state of human existence and greater liberty from social shackles, in some ways reminiscent of Rousseau. She finds all subsequent social structures, belief systems, social attitudes, behaviors and relationships, organizations and ideological isms as artificial impositions and corrosive. At the same time, she also has a Hobbesian dimension and holds that human nature is essentially selfish, disruptive and anarchic. In her most frequent avatar - as she also vacillates a bit - she is an agonistic, finds life meaningless (and also death) and often even comes across as a nihilist.
Waseem on the other hand is much more of a conformist, an optimist and a believer in a higher purpose, potential and destiny for humankind, the existence of a divine intelligence, and greater expectations from the rosier manifestations of human kindness as well as brilliance. Atif is the least developed character and more of a plot necessity as it would have appeared unrealistic for Amtal and Waseem to travel alone in the Pakistani milieu, without him as a chaperon.
To the extent that the novel engages with various philosophical questions about creation, the human experience, nature vs nurture, civilization, morality, what lies beyond death, the destiny of man etc., it is indeed quite remarkable for its time and this particular genre. It does have some powerfully written passages that are well composed and thought provoking. But as a novel, in terms of character development, plot and structure it is rather amateurish. The plot and sequence of events are merely a scaffolding on which the structure of the extensive dialogues is built. Also often they are less true dialogues and more pontification and preaching. Amtal frequently appears didactic and somewhat irritating as she starts holding forth at the drop of a hat, rather smug and all-knowing. This in turn is made further jarring by the gushing reception extended to her every utterance by the starry-eyed Waseem and the intellectually inert and lackluster Atif, as also various other interlocutors that they come across.
Another major weakness of the novel are passages where the dialogue becomes very contrived, Mills & Boon-like and sickly sweet. Especially love-sick Waseem ruins the flow and elegance of quite a few passages with what can only be described as very filmy' dialogues. The author did write scripts for films and that appears to be the reason for this unfortunate proclivity. Qateel Shifai praises it but then given his own strong tilt towards highly melodramatic poetry for films, that is understandable. Another jarring feature is that whenever Rahim Gul mentions hotel rooms, jeep rentals, horse rides, purchase of fruit or other food items etc., he promptly reports prices, makes comparisons and dwells on whether it was a good deal or not. This is not only unnecessary but appears unrealistic given that the characters are meant to be fairly wealthy and footloose. This is where Urdu fiction has always missed the services of good editors who would have quickly caught and addressed something like this. There are additional elements that are unrealistic or melodramatic and could have been addressed.
Since even the author realized that all these philosophical dialogues would be fairly monotonous if held at one location, he takes his characters on a whirlwind tour of Mansehra, Kashmir, Kaghan (with an extended and ecstatic description of Lake Saif-ul-Mulook), Swat, Quetta, Ziarat, Gilgit, Skardu, Deosai plateau and other places and provides heady and joyous descriptions of their scenic beauty. There is an obvious and infectious pride in his narration of the beauty of his land; though often when he switches from philosophical reflections to travel passages and vice versa the transitions are rather abrupt and not seamless.
During these journeys the trio comes across various additional characters, including bohemian foreign tourists, that provide additional debating opportunities to discuss differences between the east and the west, sexual mores, matrimony, love, materialism, asceticism, capitalism vs socialism, democracy, the nature of power, evil, nature's ability to heal, and much more. The conclusion when it comes is hopeful, though somewhat contrived. Genuine manifestations of human love, generosity, unselfishness and innocence (as witnessed amongst quite a few of the simple mountain people that they meet) persuade Amtal (who is also suicidal) to live on, in a human bond, and with a view to procreate. The romantic part of the novel is a bit of a drag and meant more to maintain reader interest in the real and drier mission of the book.
Despite its flaws as a novel and multiple instances where the narrative is reduced to a lecture (with Amtal's at times not so profound observations breathlessly extolled by other characters and indeed the authorial voice, as words of genius and prophetic impact) this is a novel that often provokes and inspires to question and think. That in itself makes it significant in the canon of Urdu novels and the evolution of fiction in Urdu. For that I would award it 2.5 stars but unfortunately that is not an option and hence I give it three. Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش #جنت_کی_تلاش
#رحیم_گل
نوٹ: مصنف کا نام سادہ سا ہے۔۔۔لیکن ناول نہیں
یہ ایک مضطرب روح کی کہانی ہے جو ھر لمحے اسی تلاش میں رہتی ہے کہ اصلیت کیا ہے اور حقیقت کو ماپنے کیلئے کیا پیمانہ ہونا چاہیے؟
امتل، وسیم اور عاطف کی یہ کہانی مانسہرہ سے شروع ہوتے ہوئے پاکستان کے دوسرے شمالی علاقاجات کے صحت افزاء مقامات کی سیر کرتی ہوئی بیان ہوئی ہے۔
بیشتر حصہ مکالموں پر مشتمل ہے جو کہ امتل اور وسیم یا دوسرے کرداروں جیسے اٹالین سیاح، ڈاکٹر،عاطف،تھانیدار، وزیر آغا وغیرہ کے درمیان ہوتی ہے
یہ مکالمے سوالات اور تجسس پر مبنی ہیں کہ جن میں انسان کی ذات پر جگہ جگہ لاپروائی اور بے جا اپنے اختیارات استعمال کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
اس کتاب کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ یہ ناول ہے، سفرنامہ بھی ہے، کبھی مکالمہ ہے تو کہیں پر آپکو لذیذ کھانوں کے ہوٹل کا ماحول محسوس ہوتا ہے۔
بنیادی نکتہ یہی ہے کہ انسان چاند پر پہنچ چکا لیکن نفرت اور ہوس جیسی روحانی بیماریوں سے بچنے کیلئے سائنس نے کوئی فارمولا ایجاد کیوں نہیں کیا۔۔۔۔سائنس انسان کی بے چینی کا ادراک کیوں نہیں کررہا۔۔۔؟
جہاں ہم خلا کی تسخیر کرنے نکلے ہیں وہی ہمیں اپنے من میں ڈوب جانے کا سبق کیوں نہیں ملا سائنسی کاوشوں سے۔۔۔
جس طرح ہر کردار امتل سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا اسی طرح قاری کو بھی اپنے سحر میں مبتلا رکتھی ہیں امتل کی باتیں۔
ناجانے کیوں امتل کی ہر بات دل کو چھوجاتی ہے اور وسیم کی حالت قاری بھی محسوس کرتا ہے کہ ایسا کیا ہے جو اس پاگل دیوانی لڑکی میں ہے کہ نا موت کا خوف ہے نا جینے کی آرزو۔
امتل ہمارے اندر دبی ہوئی آواز ہے جسے الفاظ نہیں ملے لیکن ہزاروں سالوں سے یہ بے چین آواز سفر پر گامزن ہے۔
ہم سب غاروں کی دنیا میں جانا چاہتے ہیں لیکن آلائشوں نے ہمیں گھیر رکھا ہے کچھ اسطرح کہ بے چینی بڑھ بھی رہی ہے اور سکون کا اطمینان بھی لئے بیٹے ہیں ہم انسان۔
سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے فلاں جگہ ایسا موسم تھا، فلاں شخص کے ماتے پر پسینہ تھا، فلاں کیفیت تھی
اسطرح کی باتیں ذرا بوجھ سی محسوس ہوتی ہے
لیکن جنت کی تلاش ایسی باتوں سے بڑی حد تک خالی ہے اور اسکی جگہ ذہن کو الجھانے والی مکالماتی بحث نے لے لی ہے جو کہ کسی نا کسی درجے پر قاری کو ایک مختلف نکتہ نظر سے دیکھنے اور سوچھنے پر مجبور کرتی ہے۔
امتل اپنی شخصیت میں کچھ ایسی کشش رکھتی ہے کہ پڑھنے والا نا چاہتے ہوئے بھی کتاب پرے نہیں رکھ سکتا اور یوں دو دنوں میں پڑھ کر بھی ایک بے سکونی سی ہے کہ شاید کچھ زیادہ وقت لگا پڑھنے میں۔۔۔
کتاب سے چند سطور ملاحظہ ہوں:
دنیا چاہے نامکمل ہو' لیکن دنیا میں ایک چیز مکمل ہوتی ہے اور وہ ہوتا ہے جوان عورت کا جسم۔۔۔۔
میں تو کہتی ہوں خود اللہ میاں بھی ہمیشہ متذبذب رہتے ہیں- پہلے ایک کتاب بھیجی پھر دوسری پھر تیسری اور پھر چوتھی
ذہانت سارے فساد کی جڑ ہے
لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ دکھ آیا کہاں سے ہے؟ اسے پیدا کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ جو نہیں ہونا چاہئے تھا وہ کیوں ہے؟
امتل کے بدن کی خوشبو سے بڑا سچ کوئی دوسرا نہیں تھا۔۔۔ایک زندہ ممتاز محل میرے سینے سے لگی ہوئی تھی
وہ لڑکی مجھ سے صرف دو قدم کے فاصلے پر کھڑی تھی' لیکن ہمارے درمیان دس ہزار سال کی تہذیب کی دیوار حائل تھی
سب بوسے کی تلاش میں ہوتے ہیں
ہر فنکار کا بڑا مسئلہ اظہارِ ذات کا ہوتا ہے۔ وہ اپنی انا کے اظہار میں انتہا پسند ہوتا ہے۔ اگر وہ سماج سے نہ ڈرتا' تو بلا دریغ خدائی کا دعویٰ کر بیٹھتا
Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش ”جنت کی تلاش“ گزشتہ برس دسمبر کے اواٸل میں شروع کی تھی۔ شروع کرنے سے قبل اس کے متعلق ایک تبصرہ پڑھ یا تھا۔ قاری اس کہانی سے کچھ خاص متاثر ہوتا نظر نہیں آیا تھا۔ اس نے اپنے تبصرے میں کرداروں کی حقیقت سے حددرجہ دوری کو نشانہ بنایا تھا۔ میں نے کتاب پڑھنا شروع کی تو مصمم ارادہ تھا کہ بھٸی کسی کردار سے متاثر نہیں ہونا۔ کسی اور کی عینک اپنی آنکھوں پہ لگا لی تھی۔ مگر کتاب شروع کی تو کہانی پرت در پرت کھلتی چلی گٸی۔
مصنف کے بقول انھوں نے اس کتاب میں اردو ادب کی دو اصناف ”ناول“ اور ”سفر نامہ“ کو ضم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب پتہ نہیں وہ اس کوشش میں کامیاب ہوٸے یا نہیں، لیکن میرے لیے اسے پڑھنا ایک منفرد تجربہ رہا۔ مصنف کا گہرا مشاہدہ، وسیع معلومات کا ذخیرہ اور آفاقی عجاٸبات پر عمیق نظر اور پھر پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی کہانی، مصنف کی زبانی پڑھنا اچھا رہا۔ حددرجہ وسیع موضوعات پر تکرار، نت نٸے نقطہٕ نظر، اذہان کی کھڑکیاں کھولتی مضبوط مگر لچک دار آرإ پر مبنی گفتگو نے مطالعے کو خاصا دلچسپ بنا دیا۔ ہنزہ، سکردو، کالام، ناران، جھیل سیف الملوک سمیت بیشتر علاقوں کی سیر کا احوال پرلطف تھا۔ سب سے دلچسپ کہانی ”دیو ساٸی“ کی لگی۔ اس کے متعلق پڑھ کر وہاں جانے کا اشتیاق بڑھ گیا کہ اس کے بارے میں سنا کم ہے۔
جہاں تک تعلق ہے کہانی اور کرداروں کی تو مرکزی کردار اتنے متاثر کن نہ تھے۔ کہانی بھی صحیح تھی۔ سب سے زیادہ ڈراماٸی کردار ”امتل“ کا تھا جس کی ہر دوسرا کردار پرستش کرتا دکھاٸی دیتا تھا۔ اب اللہ جانے بےچارے مصنف نے کتنی لگن سے اس کردار کو تحریر کیا تھا۔
مجموعی طور پر کتاب کو پڑھنا مفید تجربہ رہا۔ قارٸین کے لیے یہ ایک اچھی کتاب ثابت ہوگی۔ Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش Jannat Ki Talaash is a prominent Urdu novel by prominent Pakistani writer Rahim Gul. This is a sort of itinerary than a novel, as the four characters including the main character (Imtal, a girl) traveling in northern areas(Pakistan) and Baluchistan (Pakistan), and discussing with each other and with other people (travelers,Drivers, officers, servants, and hippies)the true purpose of life and human being. during their journeys they came upon various types of people e.g. gypsies, people living in mountains, people with small means, and compared their status of happiness and satisfaction with their own happiness and satisfaction.The story and most of the dialogues is mainly narrated by & between two characters (Imtal and Waseem). I am giving it four stars as I did not enjoy the unnecessary philosophy in this book, and the contradicting statements of characters and the characters life style. and last but not the least, I do not like this book because I believe, to see poor people and taste their food is just an adventure for rich people. Jannat Ki Talash / جنت کی تلاش