Majmua Rajindar Singh Bedi / مجموعہ راجندر سنگھ بیدی By Rajinder Singh Bedi

افسانے، ناول، ڈرامے، مضامین۔ Majmua Rajindar Singh Bedi / مجموعہ راجندر سنگھ بیدی

Majmua

download î eBook, PDF or Kindle ePUB » Rajinder Singh Bedi


فن کسی شخص میں سوتے کی طرح سے نہیں پھوٹ نکلتا۔ ایسا نہیں کہ آج رات آپ سوئیں گے اور صبح فن کار ہوکر جاگیں گے۔ یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فلاں آدمی پیدائشی طور پر فن کار ہے، لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے، البتہ، کہ اس میں صلاحیتیں ہیں، جن کا ہونا بہت ضروری ہے۔ چاہے وہ اسے جبلت میں ملیں اور یا وہ ریاضت سے ان کا اکتساب کرے۔ پہلی تو یہ کہ وہ ہر بات کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ محسوس کرتا ہو، جس کے لیے ایک طرف تو وہ دادِ تحسین پائے اور دوسری طرف ایسے دُکھ اٹھائے جیسے کہ اس کے بدن سے کھال کھینچ لی گئی ہو اور اسے نمک کی کان سے گزرنا پڑرہا ہو۔ دوسری صلاحیت یہ کہ اس کے کام و دہن اُس چرند کی طرح ہوں جو منہ چلانے میں خوراک کو ریت اور مٹی سے الگ کرسکے۔ پھر یہ خیال اس کے دل میں کبھی نہ آئے کہ بجلی کا خرچ زیادہ ہوگیا ہے یا کاغذ کے ریم کے ریم ضائع ہوگئے ہیں۔ وہ جانتا ہو کہ قدرت کے کسی بنیادی قانون کے تحت کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی۔ پھر وہ ڈھیٹ ایسا ہو کہ نقشِ ثانی کو ہمیشہ نقشِ اوّل پر فوقیت دے سکے۔ پھر اپنے فن سے پرے کی باتوں پہ کان دھرے۔ مثلاً موسیقی، اور جان پائے کہ استاد کیوں سُر کی تلاش میں بہت دور نکل گیا ہے۔ مصوری کے لیے نگاہ رکھے اور سمجھے کہ وشی واشی میں خطوط کیسی عنایت اور توانائی سے ابھرے ہیں۔ اگر یہ ساری صلاحیتیں اس میں ہوں تو آخر میں ایک معمولی سی بات رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ جس ایڈیٹر نے اس کا افسانہ لوٹا دیا ہے، وہ گدھا ہے!

- راجندر سنگھ بیدی

فسانہ لکھنے کے فن میں بھولنا اور یاد رکھنا، دونوں عمل ایک ساتھ چلتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ بڑی بڑی ڈگریوں والے پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ اچھا افسانہ نہیں لکھ سکتے۔ کیونکہ انہیں بھول نہ سکنے کی بیماری ہے۔ میں ایک دماغی تساہل کی طرف اشارہ کرتا ہوں جسے منٹو نے میرے نام ایک خط میں لکھا۔ “بیدی، تمہاری مصیبت یہ ہے کہ تم سوچتے بہت زیادہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کہ لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، لکھتے ہوئے سوچتے ہو اور لکھنے کے بعد سوچتے ہو۔” میں سمجھ گیا کہ منٹو کا کیا مطلب ہے ۔۔۔ میری کہانیوں میں کہانی کم اور مزدوری زیادہ ہے۔ مگر میں کیا کرتا ؟ ایک طرف مجھے فن اور دوسری طرف زبان سے لوہا لینا تھا۔ اہلِ زبان اس قدر بے مروت نکلے کہ اقبال تک کا لحاظ نہ کیا۔ کسی سے پوچھا آپ اقبال سے ملے تو کیا بات ہوئی۔ بولے کہ کچھ نہیں، میں جی ہاں، جی ہاں کہتا رہا اور وہ ہاں جی، ہاں جی کہتے رہے۔ اب حالات میں نسبتاً آسانی ہے کیونکہ سند کے لیے ہمیں کہیں دور نہیں جانا۔ پرسوں ہی ڈاکٹر نارنگ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں ایک تحریک چلی ہے جو شوکت صدیقی اور قراتہ العین حیدر کی پُورب سے آئی ہوئی زبان کو ٹکسالی نہیں مانتی۔ بہرحال میں نے منٹو کی تنقید سے فائدہ اٹھایا مگر وہ بے ادائی کی ادا جس کی طرف منٹو نے اشارہ کیا، میر کے الفاظ میں خاک ہی میں مل کر میسر آتی ہے۔ لیکن یہی بے ادائی اور قلم برداشتگی جہاں منٹو میں مزا پیدا کرتی تھی، وہیں بدمزگی بھی۔ جب میں نے منٹو کے کچھ افسانوں میں لاابالی پن دیکھا تو اسے لکھا ۔۔۔ منٹو، تم میں ایک ایک بڑی بری بات ہے اور وہ یہ کہ تم لکھنے سے پہلے سوچتے ہو، نہ لکھتے ہوئے سوچتے ہو اور نہ لکھنے کے بعد سوچتے ہو۔

اس کے بعد منٹو اور مجھ میں خط و کتابت بند ہوگئی۔ Hardcover I WANT TO OWN THIS BOOK!!!!!! Hardcover